لاکھ شکوے تھے مگر دل اسے بتا نہ سکا
ہاتھ میں ہاتھ تھا پر دل سے دل ملا نہ سکا
ہم تھے فاخر کے اسے پاس وفا ہے محبوب
وفا کے نام سے نسبت مگر دکھا نہ سکا
ہائے اس رات دیدنی تھی میری بربادی
خون ِدل جیسے مہندی سے وہ چھپا نہ سکا
جام سفال میں پلائی گئی مئے سکون
بہرہ مند تھا کبھی اب منہ اسے لگا نہ سکا
ہوں میں قابل؟ کہ اسے دستِ عمل سے ماروں
جسے خیال کیا مدتوں بُھلا نہ سکا
دیار ِیار ہے یاں سر اُٹھا کے جی اظہر
تیرے وقار کا حصار کوئی ڈھا نہ سکا
زوہیب اظہر
1st Semester
Khyber Law College
Post a Comment