خاموش گواہ




 ۔۔۔۔۔خاموش گواہ۔۔۔۔۔



یونیورسٹی ہاسٹل سے ناشتے کیلیئے جا رہا تھا کہ ہاسٹل 04 (جہاں شاید انجنئیرنگ کے طالبعلم ہیں ) کے سامنے ایک گورا چٹا پٹھان اور ایک کرسچن جاڑو دے رہے تھے ۔۔

پٹھان نے کریسچن سے کہا کہ یہ ٹشو پیپر اس سمت نہ پھینکو تو اس نے کہا کہ یہ طالبعلم گزر جائے تو میں خود سب اکھٹا کرلوں گا اور پھر وہ جاڑو میں مصروف ہوا ۔۔۔ اگلے لمحے کیا تھا کہ کرسچن نے پھر ہلکی جاڑو لگائی ٹشو پیپرز کو، بس پٹھان اس پر رستم کے طرح جھپٹ پڑا ۔ کرسچن کو سرخی مائل(شاید دھوپ کے وجہ سے) سیاہ وسفید بال جو لمبے تھے اور پونی لگائی ہوئی تھی اس میں، پکڑا اور کہا کہ " د چنگڑئ زویہ ،تہ نہ اورے" خیر سیکورٹی گارڈ نے معاملہ سلجھایا ۔

اسی نوعیت کا ایک واقعہ میرے کالج کے زمانے میں مردان میں پیش آیا جب پارہوتی کے ایک کراکری مارکیٹ میں دو کریسچن بھائیوں کو بیچ سڑک میں زذوکوب کیا گیا ۔۔۔ پولیس کھڑی تھی اور نو دس آدمی ہلکے اور بھاری برتن دونوں کو ایسے مار رہے تھے جیسے مجرم ثابت بالزنا ہو اور رجم کا حکم ملا ہو ۔۔اسی اثنا میں چائے کی ایک ہینڈل والا پیالہ ایک کے سر پر دے مارا اور خون کا پھوارا سر سے جاری ہوا۔۔۔ ایک درندہ مونچھوں کو تاؤ دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا " کہ سوک رانزدے شوے نو زما بہ درسرہ کار وی " جب لڑائی کے محرک کا پتہ چلا تھا تو اس کرسچن کے چھوٹی بیٹی نے آئینہ توڑ دیا تھا اس دکان والے کا ۔ 

خیر " تا دم است ،غم است ۔

یہی غیرت ہے جس کیلیئے مسلمان اور بالخصوص پٹھان مانے اور جانے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ، اپنے اقلیتوں کے ساتھ آپ کا سلوک قابل تحسین ہے ۔بہت خووب

بحیثیت قوم ہم اس کے مصداق ہیں کہ 

"خود می زند وخود فریاد می کند "


زوہیب اظہر


Post a Comment

Previous Post Next Post