افسانہ : پنجرہ
جمال ابھی ابھی ایف ایس سی ( F.S.C) میں اعلیٰ نمبروں سے امتحانات پاس کر چکا تھا. اس نے ایم ڈی کیٹ (MDCAT) جو کہ کسی بھی سر کاری اور نجی میڈیکل وڈینٹل کالجز میں داخلہ لینے کے لیا جاتا ہے میں کچھ نمبروں سے پیچھے رہ گیا تھا۔ اس نے کئی بار اس کو پاس کرنے کے لیے خوب محنت کی لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا اس میں شامل نہیں رہا اور ہر بار رہ چکا ہے۔ چونکہ اسے میڈیکل کے شعبے سے کافی لگاوں تھا اسلئے وہ اپنے من اور کچھ دوستوں کے مشورے سے نرسنگ کالج پشاور میں داخلا لیا۔
جمال ایک حسین اور لمبے قد کا لڑکا ہے نہایت دلکش، چمکتا ہوا چہرہ اور خود اعتمادی سے لبریز تھا، جس کا تعلق پختونخواہ کے ایک چھوٹے گاؤں سے ہے. چھوٹا اور پسماندہ گاؤں، لیکن جمال کو ہرگز پسماندگی سے تشبیہ نہ دے اور یہ مت سمجھے کہ وہ بھی اس طرح ہوگا، ہرگز نہیں۔ اس نے ایک جیّد مذہبی اور نہایت بڑے خاندان میں جنم لیا تھا اور اس میں پرورش ہوئی تھی۔
بڑے دو بھائی، ان میں سے ایک اعلیٰ سرکاری ملازم اور دوسرا اقوام متحدہ میں مشیر تھا، جو کئی سالوں سے 'بوسنیہ' میں اپنے کنبہ کے ساتھ رہتا ہے۔ جمال سب سے چھوٹا ہے، چونکہ گھر میں دونوں بھائی اکثر موجود نہیں تھے اس لیے گھر کا کا سارا بوجھ اور گھر کا دیکھ بھال بھی وہی کرتا رہا ہیں۔ گھر میں دو بہنیں گلالئی اور ماجبین بھی کنواری بیٹھی ہیں۔ دونوں نہایت قابل اور ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل رکھا ہیں۔ گلالئ نے تو اکاونٹنگ میں گولڈ مڈل بھی اپنے نام کیا ہیں، جو الماری میں اس کے اور کاغذات کے ساتھ کسی کونے میں پڑا ہوگا۔
پچھلے سال جب گلائی گھر کی صفائی ستھرائی کر رہی تھی تو الماری میں دیکھا تھا، خاندان کو دونوں لڑکیوں کے عزت اور حیا کی خاطر جو اُن کو لڑکوں کی زندگیوں سے بھی عزیز معلوم ہوتا تھا کی وجہ سے گھر میں ایک قسم کے قیدی بنا رکھے تھے، جو صبح اُٹھتی، گھر کی صفائی ستھرائی کرتی ، ناشتہ بناتی، محلے کی عورتوں کے ساتھ غیبت کرتی اور سو جاتی۔ یعنی ہر وہ کام جو ایک عام ہاوس واںٔف کرتی ہیں دونوں کرتی تھی ۔ ان کی اٹھ پوپھیاں ہیں جن کے کافی اولاد بھی ہیں اور ساتھ ساتھ ان کا کنبہ بڑا ہے، جواںٔنٹ فیملی ہیں، اور اُن کے پوپھیاں بھی زیادہ تر اپنے شوہر اور بچوں کے ہاں ان کے یہاں ہوتی تھی. ہر روز کوئی نہ کوئی مہمان ہوتا تھا، اور وہ ان کے خاطر خواہ توازوں کرتے تھے۔
جمال اپنی خاندان اور لوگوں کی طرح نہیں سوچتا تھا وہ لڑکیوں کی زمہ داری اور اُن کو مردوں کے شانہ بشانہ دیکھنے کا قائل تھا۔ اپنے بہنوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں آشک بار روتا تھا۔ بیشتر اوقات اماں سے بات چھیڑتا۔
جمال : امَاں! ماجین اور گلالئی کو نوکری کرنی چاہیں۔
اماں: نہیں بیٹا لڑکیاں یا تو گھر یا تو قبر کی ہوتی ہیں۔ اب بھلا تمہاری بہنیں مردوں کے ماحول میں کیسی نوکری کرے گی، بے غیرت، تمہاری بہنیں تمہاری عزت ہیں، تم چاہوگے کے کوئی تمہاری عزت پر داغ لگائے، لڑکیاں دوسرے گھروں کی ہوتی ہے اگر ان کے شوہر اجازت دے تو دے ہم نہیں دے سکتے۔ جب بھی وہ ماں اور گھر والوں سے یہی معاملہ چھیڑتا تو اُس کو 'پختون ولی' اور 'پختوں' کا ایک لمبا لیکچر سننا پڑتا تھا. اب اس نے یہ گفت وشنید اپنے خاندان کے ساتھ ختم کیا تھا وہ مزید اپنے گھر والوں کے ساتھ تکرار نہیں چاہتا تھا۔
خیر چھوڑ یے!
جمال صبح سویرے اُٹھنے والا چست نوجوان تھا وہ اپنے ہم عمر دوستوں اور لڑکوں سے کافی الگ اور منفرد تھا۔ صبح اُٹھ کر نماز پڑتا، ورزش کرتا تھا اور ناشتہ کر کے اپنے کاموں کو فارغ کرنے کے لیے نکلتا۔ آج جمال کا نرسنگ کالج میں پہلا دن ہے ، تیار ہو کر کالج کی طرف روانہ ہوے، جب کالج میں داخل ہوا تو شوروغل سُنا، کالج میں بھیڑ تھا، جیسے کئی لوگی کسی انسان کو گھیر رکھا ہو. ہاں ! اسطرح ہی تھا. اس نرسنگ کالج کے یہ روایات تھے کہ جب بھی نئے طلباء داخلہ لیتے تو سینںٔر طلباء اُن کی خوب لیتے تھیں اُن کے ساتھ مذاق ہوتا تھا اور ان سے یہاں تک کے ویڈیوز بھی بنائے جاتی تھی۔ جمال چونکہ ظاہری طور پر بہت پر اثر لگتا تھا اور خود اعتمادی سونے پر سوہاگا۔ جب وہاں گیا تو وہ سب دیکھ کر تھوڑا سا غصَہ ہوا اور وہ لڑکا جس کا مذاق اڑایا جارہا تھا کو چھوڑا.
جمال: ارے بھائی جان! آپ تو اس کی بے عزتی کر رہے ہے مذاق ہو تو دائرے میں.
جواب: اچھا اب ہمیں چوزہ بتائے گا ،کہ کیا کرنا ہے.
اور ہجوم نے قہقہے اونچی کںٔے۔
جمال نے اس بات کو اگنور کیا کیونکہ وہ ہنگامہ نہیں چاہتا تھا۔
جمال: کیا تمہیں ظاہر سے لگتا ہے کہ میں چوزا ہو؟
جواب: آگر لگتے بھی نہیں ہو، تو ہم بنا لینگے کوئی مسلہ نہیں، ہم بنانے میں کافی ماہر ہیں .
جمال: اس لڑکے کو چھوڑ یے۔
جواب: جو کر سکتے ہو کر لوں نہیں چوڑونگا.
اس دوراں جمال کو ایک بات سوجی اور اُس نے ایک چال چلی۔
جمال: میں ان نئے طالبعلموں کا نیا اُستاذ ہو۔
چال چلا۔
یہ سن کر ادھے لڑکے رپو چکر ہوگئے ۔ لڑکا زبان لڑکڑا کر بولا؛
جواب: حضور معافی چاہتا ہوں میری شکایت پرنسپل سے نہ کرے، مجھ سے بڑی غلطی ہوئی ہیں۔
جمال: ہاں ہاں لیکن اس لڑکے سے معافی مانگوں.
جواب: بہت معافی بھائی.
ظاہری بات ہے ہر کسی کو جی. پی۔اے عزیز ہے۔
یہ کہہ کر سارے لڑکے غائب ہوئے، اور وہی پر جب کافی شور تھا، اچانک سناٹا چھا گیا.
جس لڑکے کا مذاق بنایا جارہا تھا اس کا نام 'جاوید' تھا اور اس کے ساتھ اس کی بہن 'سائرہ' تھی. وہ تینوں وہاں رہ گئے تھیں۔ جاوید مدھم آواز میں بولا.
جاوید: اسلام و علیکم سر !
جمال اپنے دائیں بائیں طرف دیکھا اور پھر اسے اندازہ ہوا کہ وہ سر ہے۔
جمال: جی بچے و علیکم اسلام .
جاوید: سرجی بہت بہت شکریہ آپ نے میری عزت نفس محفوظ رکھا۔
جمال : یہ میرا فرض ہے کوئی نہیں.
جمال نے باتوں باتوں میں اُنہیں یہ احساس دلایا کہ وہ استاد نہیں ہے محض تمہیں بچانے کے لیے یہ چال چلایا تھا.
ان دونوں بہن بھائی کو بھی معلوم ہوا کے کچھ اسطرح تھا. جاوید کی بہن سائرہ کو جمال کا یہ معاملہ اور امداد دیکھ کر دل میں اس کے لیئے محبت دیکھا.
یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوا تھا اس میں سمے لگا تھا لیکن 'پہلا ایمپریشن آخری ایمپریشن ہوتا ہے' اور کچھ یوں کے ساںٔرہ اور جاوید کے ساتھ اس کی دوستی ہوئی. یہ جمال کا کالج میں پہلے دوست تھیں۔ جمال کا دل بھی سائرہ کے لیئے دھڑکتا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے عشق ہونے لگا. لیکن دونوں نے کبھی بھی ظاہر نہیں کیا۔ان کا دھیان ہمیشہ اپنے کام سے رہا۔
جاوید چونکہ لڑکا تھا ان کے والد نے جو کے اپنے علاقیں کا ملک تھا۔ خیبر میڈیکل کالج میں سلف پر داخل کروا لیا اور سائرہ نرسنگ بڑھتی رہی۔ اب جمال اور سائرہ کے لیے میدان صاف تھا۔ دونوں کافی لائق سٹوڈنٹ ثابت ہوے تھے۔ اگر سچ کہے تو ساںٔرہ کا جی.پی.اے جمال سے زیادہ ہوتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ کافی مدد کرتے رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہوں، دونوں کلاس کے دوسرے لڑکی لڑکوں کا مدد بھی کرتے رہیں. دونوں کا مثال اُس شمع کی سی تھی جو خود کو قربان کر کے روشنی فراہم کرے۔
اب دونوں کے درمیان سمبند کافی گہرا ہو چکا تھا کلاس اور پریکٹیکل سے فراغت کے بعد وہ دونوں کالج سے بیوسط ایک کیفے میں بیٹھ کر وقت گزارتے اور میڈیکل ایجو کیشن کے ساتھ ساتھ ذاتی باتیں بھی ہوتی رہتی تھی.
جمال کو اب یہ فکر لاحق تھا کہ وہ اب اس رشتہ کو ایک پاک رشتہ یعنی میاں بیوی میں بدلنا چاہیے۔ جمال کو لگ رہا تھا کہ سائرہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ دونوں کا ایک دوسرے کے لیے دل میں ضرور کچھ تھا ورنہ جمال کبھی یہ نہ سوچتا. جمال چونکہ زمہ دار اور میچور لڑکا تھا، سائرہ اپنے اپ کو اس کے ساتھ مستقبل میں دیکھ کر اعتماد پا لیتی.
دونوں کیفے میں بیٹھے بات کر رہے تھے۔
جمال: سائرہ آج کے لیے اتنا لرننگ کافی ہیں، کل دادا کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ میں گاؤں سے لیٹ آگیا تھا آج کافی تھکان لگ رہی ہیں .
ساںرہ زرا اونچی لیکن مدھم آواز میں بولی؛
سائرہ: ابھی تو شروع کیا ہے.
حالانکہ دونوں ، فنڈامینٹل آف نرسنگ کے پانچ عنوان کر چکے تھے۔
جمال: ویسے بھی سر سے ہی گزرنا ہیں۔
سائرہ: نہیں ہمیں پڑھنا چاہئے۔
ساںٔرہ نے پڑھنے پر زور دیا کیونکہ جمال ایک ہفتہ سے گاؤں میں تھا۔ سائرہ کتابی کیڑا ہے، اور اس کے ساتھ ذہین بھی. وہ اول اُس کی بات نہیں سمجھی لیکن دھیرے دھیرے اُسے احساس ہوا کے جمال کچھ اور کہنا چاہتا ہے، دادا کی طبیعت تو ایک بہانہ تھا. جمال اُس سے کچھ اور کہنا چاہتا ہے۔ وہی بات جو ہر پروانہ شمع کے ساتھ کرتا ہے۔ جی ہاں۔
مر مٹنے اور ساتھ رہنے کی باتھ۔
جمال: سائرہ میں کچھ بولنا چاہتا ہو، میری دل کی بات سائرہ: ہاں جی بولیں۔
جمال کو تھوڑی ہچکچاہٹ محسوس ہوئی اور من میں بات بنا رہا تھا ۔
سائرہ بولی ! آپ کچھ کہنا چاہتے تھے۔
جمال نے بالواسطہ یہ بولا
جمال: سائرہ میں چاہتا ہو کے۔ اور روگ گیا۔
وہ اپنی من کی باتھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کو کافی نزدیک سے جانتے ہیں اور ان کے مابین بہت کھلی بات ہوتی ہے لیکن اس دن جمال بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی کیا وجہ تھی یہ جمال جانے۔ جمال کو یہ بات کہنے میں کافی کوشش کرنا پڑا۔
جمال: سائرہ میں چاہتا ہو کہ ہم اپنے اس دوستی کی رشتے کو نکاح کا نام دے، تم کیا سوچتی ہوں۔
دونوں کے مابین ایک گہری خاموشی چھا گئی .
سائرہ: کیا مطلب؟ جمال صاحب.
سائرہ کو جیسے چالس واٹ کا دھچکا لگا ہو۔ اُس نے جمال کو کچھ نہیں بتایا اور اٹھ چلی گئ۔
جمال کو لگا کہ اُس نے کافی آشلیل حرکت کی ہے ، اُسے فوراً اندازہ ہوا کے وہ اپنی بات واپس لے لیں ، جیسے اس پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو؟ زمین پاؤں سے کھیسک گئ ہو۔ ایک عجب سماں اور اضطراب اُس کے دل و دماغ پر طاری ہوگئے تھیں۔ جیسے اس نے کوئی برا خواب دیکھا ہو، دل بھی تور و شسر دھڑک رہا تھا۔ یہ سب کچھ 'ایڈرینیل رش' کی وجہ سے ہوا تھا۔ 6،5 منٹ بعد وہ نارمل ہوا اور اپنی Stethoscope گلے میں لٹکا کر وہاں سے گئے۔
اُسے واٹس ایپ کا خیال آیا چنانچہ اس نے رابطہ کرکے میسج ٹائپ کر کے لکھا۔
"سائرہ میں آپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی کوئی ارادہ رکھتا ہو میں تو محض اس رشتے کو پاک نام دینا چاہتا ہو جو کہ اسلام بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے"
سائرہ نے جمال کو اگنور کرنا شروع کیا۔ اس نے میسج سین کر کے جواب نہ دیا ، اسی حرکت نے جمال کی بے چینی مزید بڑھادی ، وہ سارا وقت یہی سوچتا رہا۔ اس نے سائرہ کو مزید تنگ نہ کیا اور اپنے حال پر چھوڑ دیا.
ایسا لگ رہا تھا کہ سائرہ انجانے میں یہ سب کچھ کر رہی تھی، ایسے معلوم ہو رہا ہو، کہ وہ جمال سے اس فیصلے پر تھوڑا سمے مانگ رہی تھی.
سائرہ دو دنوں کے لیے کالج بھی نہیں آئی تھی۔ جمال کی پریشان مزید بڑھ گئی تھی۔
اسی دوران جمال نے رابطہ کیا لیکن اسے مکمل اگنور کیا جارہا تھا۔
دو دن بات دونوں کا مد بھیٹر ہوا۔
جمال: خیرت ! سائرہ .
سائرہ مسکرائی اور بولی ۔
I'm doing well.
And You ?
جمال کو لگا کہ وہ بلکل بھی ناراض نہیں ہیں اور اس نے دعوت کو قبول کیا ہے۔
سائرہ نے جمال کو اسلئے اگنور کیا تھا ، کیونکہ وہ بختون اقدار اور پختو کے روایات جیسے حیاء، عزت، غیرت، پیغور وغیره وغیره۔ سے ڈر گئی تھی، اور مزید یہ کہ اس کے والد پٹھان ہے اور وہ بھی اپنے گاؤں کا ملک ہیں ۔ سائرہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتی کہ اس کے آباجان کو کوئی اس کی طعنہ (بیغور) دے، کہ تمہاری صاحبزادی نرسنگ کالج میں ایک لڑکے کے ساتھ عشق لڑارہی ہے، حالانکہ ایسا بلکل بھی نہیں تھا دونوں کا رشتہ اور ارادہ پاک تھا. لیکن پختوں کباب میں ہڈی کی مانند آگئی تھی.
سائرہ نے جمال کو بتایا کہ انہوں نے انتہائی جرأت کر کے یہ بات اپنے اماں کو بتایا ہے اور جلد یہ بات اس کے والد (ملک صاحب) کو پہنچی تھی۔ ملک صاحب زیرک اور تدبر والا انسان ہے، اس نے معاملہ سمجھ کر، رشتے کی لیے ہاں کیا ہے۔ جمال نے جب یہ روداد سائرہ سے سنی تو انتہائی خوش ہو گیا، جیسے خزان کے بعد بہار کا انا، جیسے مردہ کا دوبارہ زندہ ہونا۔ وہ دن اس کے زندگی کا سب سے اچھا دن ثابت ہوا۔جمال خوشی گھر چلا گیا. لیکن جمال کا اتنا خوش ہونا بھی ٹھیک نہیں تھا کیونکہ اب اس کو ایک اور 'پل صراط'
پار کرنا تھا ۔
جمال: اماں میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہو.
اماں مسکرا کر بولی، مجھے پتہ ہے تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ تمہارے دل میں کسی لڑکی کا پیار ہے جو تمہیں ستارہی ہے۔
جمال یہ سن کر حق دق حیران ہوا. لیکن ماں تو ماں ہوتی ہیں، اپنے اولاد کی ہر بات بغیر بولے سن لیتی ہے۔
جمال: جی اماں اسطرح ہی کچھ معاملہ ہیں ۔
جمال اپنی امی سے کافی نزدیک تھا اور وہ چھوٹا بھی تھا، اس لیے اس نے کوئی شرم محسوس نہیں کی۔
جمال : امَاں وہ ہمارے ساتھ کلاس میں پڑھتی ہیں، اچھی لڑکی ہیں۔
اماں تیش میں آکر بولی۔
اماں: خبردار! اب میں تمہارے لیئے کوئی ایری غیری، پراںٔی لڑکی کو اپنے گھر میں نہیں لا سکتی، کالج میں پڑھنے والی لڑکیاں، بد چلن اور بدکردار ہوتی ہیں۔
اس کی ماں نے مزید براںٔی کی، رگاتار بولی، اسے یہ احساس بلکل بھی نہیں ہوا کے گلالئ اور ماجبین بھی کالجز سے گریجویٹ ہیں۔ جمال کو محسوس ہوا کہ اس کی ماں بلکل بھی اس رشتہ میں راضی نہیں ہے، اور یو تھا بھی۔ کون دیہاتی پٹھانی ماں چاہے گی کہ وہ اپنے روایات یعنی بختوں سے انحراف کرے. جمال نے اپنی ماں کو بہت سمجھایا، لیکن اُس کی ماں ٹس سے مس نہ ہوئی، چنانچہ اس نے اپنے بھائیوں سے بات کی، بھاںیوں سے بات کرنے پر بڑے بھائی نے اس کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی تھی اور کہا تھا کہ پٹھان اِسطرح نہیں کرتے، پحتونوں کا یہ روایات نہیں ہیں۔
ان سب سے مایوس ہو کر اس نے اپنے نانا اور دادا کا رخ کیا۔ پختونوں میں اسطرح کرنا بجا ہے۔ دادا، نانا یا کوئی او مشر، کوںٔی فیصلہ کرے تو سب کو ماننا ہوگا ۔ جمال ہوشیار
تھا اس نے بھی یہی کیا۔ دادا جی کو اور بڑے بزرگوں کو اپنے خاندان پر جرگہ کیا اور آخر کار اس کی اماں اور بھائی کو مشران کی بات ماننا پڑی۔
اب دونوں فریقین شادی کے لیئے راضی ہیں. اس گہماگہم ماحول میں جمال اور سائرہ کا (BSN) بھی مکمل ہوگیا تھا اور دونوں پروفیشنل نرس کہلانے لگیں۔ ان دونوں کی شادی کافی دھوم دھام سے ہوئی، کلاشنکوف کا خصوصی طور پر استعمال کیا گیا۔ آتش بازی سے لیکر
تنگ ٹکور تک، خواجہ سراؤں کو نچانے سے لیکر اتن تک، شب کچھ گرم جوشی سے ہوا۔
اب جمال اور سائرہ دونوں خوشی اور محبت سے زندگی گزار رہے تھیں، لیکن ظاہری بات ہے زندگی گزانے کے لئے پیٹھ کا تو خیال رکھنا پڑتا ہے اور ساںٔرہ بھی تو اب جمال پر بوجھ بن چکی تھی۔ شادی کی رونق اور جذبات دھیرے دھیرے کم ہونے لگے تھیں۔ جمال نے پریکٹس کرنے کا سوچا، اس کی قسمت کا ستارہ زور و شور سے چمک رہا تھا، او ان کو کویت میں ایک نامور ہسپتال میں نوکری ملی تھی، اسی درمیان ان کا ایک بیٹا شوکت بھی پیدا ہوگیا تھا۔ لیکن سائرہ کا قسمت بند رہا۔
اس نے سوچا کہ وہ یہاں نوکری کرے۔ سائرہ بھی ذہین سٹوڈنٹ رہ چکی تھی۔ اس نے قسمت آزمایا تو لو جی اس کی نوکری شفاء انٹر نیشنل ہسپیٹل اسلام آباد میں ہوئی۔ اُس نے یہ خوشی اپنے سسرال میں سنائی لیکن کوئی بھی اس کے اس فیصلے سے خوش نہیں تھا۔ پیچھاری نے بہت کوشش کی لیکن کچھ نہ بنا، جمال بھی اُن کے آگے بے بس ہو گیا تھا۔ ساںٔرہ نے یہ بات بیشتر اوقات اپنے والد سے بھی کی، لیکن والد کا کہنا تھا کہ وہ اب جمال کی زمہ داری ہے۔ ملک صاحب بھی بے بس تھا۔ ساںرہ کا کچھ نہ بنا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جمال جو نہایت ترقی پسند انسان تھا وہ بلکل بھی کوشش نہیں کر رہا ہے، اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف داری کر رہا ہو، لیکن اس نے یہ بات کبھی بھی سائرہ پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ سائرہ گھر میں ماجبین اور گلالئی کی طرح ہاؤس وائف بن گئ، اور ہر سال اس کا ایک بچہ ہوتا ہے۔ اب وہ قیدی ہے، بختوں، غیرت، بیغور ، عزت، حیاء کی پنجیریں میں، جس کا مثال اس پرندے کی سی جسے اڑنے سے پہلے قید کیا جائے۔
سائرہ کے اب چار بچے ہے، سات، پانچ، تین اور ایک سال کے۔
جس میں تین لڑکیاں ہے۔ سائرہ نے بھی اس پنجرے سے نکلنے کی دوبارہ کوشش نہیں کی.
زید علی
نہم سیمسٹر
خیبر لاءکالج
Email : Mindsphereklc@gmail.com
Post a Comment