کون الزام کس کے سر دھر لے
خامشی ٹھہری موردِ الزام
امیرِ شہر سے کیوں الجھوں میں
جب مقدر میں تھا یہی انجام
صاحبِ کُن یہ بات کرلوں میں؟
کیا یہ خاکی تھے واقفِ آلام؟
دل کی دنیا عجیب صحرا ہے
دھوپ سائے کا کھیل ہے ہر گام
کیا کوئی رازِ جاں گنوائے گا؟
کیا کوئی کھول دے گا دل کے بام؟
اب تو لفظوں کا بھی گماں ٹوٹا
خامشی بن گئی ہے تیغِ تام
سچ کی دہلیز پر کہاں رکنا؟
جھوٹ بکھرا ہوا ہے زیرِ بام
وقت چپکے سے کتنی باتیں کہے
چھپا ہے ہر گھڑی میں اک پیغام
زندگی ایک اجنبی سا سوال
موت جیسے کوئی کھلا الزام
عشق کس درجہ بے اماں نکلا
صاحبِ تاج بھی ہوئے ناکام
است ونیست خدا زیست کہاں
مارتے مرتے لب پہ تیرا نام
زوہیب اظہر
Post a Comment